پیامِ صبح( ماخوذ از لانگ فیلو) |
اُجالا جب ہُوا رخصت جبینِ شب کی افشاں کا نسیمِ زندگی پیغام لائی صبحِ خنداں کا |
جگایا بُلبلِ رنگیں نوا کو آشیانے میں کنارے کھیت کے شانہ ہِلایا اُس نے دہقاں کا |
طلسمِ ظلمتِ شب سُورۂ والنُّور سے توڑا اندھیرے میں اُڑایا تاجِ زر شمعِ شبستاں کا |
پڑھا خوابیدگانِ دَیر پر افسونِ بیداری برہمن کو دیا پیغام خورشیدِ دُرَخشاں کا |
ہُوئی بامِ حرم پر آ کے یوں گویا مؤذّن سے نہیں کھٹکا ترے دل میں نمودِ مہرِ تاباں کا؟ |
پُکاری اس طرح دیوارِ گلشن پر کھڑے ہو کر چٹک او غنچہ گُل! تُو مؤذّن ہے گُلستاں کا |
دیا یہ حکم صحرا میں چلو اے قافلے والو! چمکنے کو ہے جُگنو بن کے ہر ذرّہ بیاباں کا |
سوئے گورِ غریباں جب گئی زندوں کی بستی سے تو یوں بولی نظارا دیکھ کر شہرِ خموشاں کا |
ابھی آرام سے لیٹے رہو، مَیں پھر بھی آؤں گی سُلادوں گی جہاں کو، خواب سے تم کو جگاؤں گی |