عشرتِ امروز |
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیامِ عیش و سرور نہ کھینچ نقشۂ کیفیّتِ شرابِ طہور |
فراقِ حُور میں ہو غم سے ہمکنار نہ تو پری کو شیشۂ الفاظ میں اُتار نہ تو |
مجھے فریفتۂ ساقیِ جمیل نہ کر بیانِ حُور نہ کر، ذکرِ سلسبیل نہ کر |
مقامِ امن ہے جنّت، مجھے کلام نہیں شباب کے لیے موزُوں ترا پیام نہیں |
شباب، آہ! کہاں تک اُمیدوار رہے وہ عیش، عیش نہیں، جس کا انتظار رہے |
وہ حُسن کیا جو محتاجِ چشمِ بینا ہو نموُد کے لیے منّت پذیرِ فردا ہو |
عجیب چیز ہے احساس زندگانی کا عقیدہ ’عشرتِ امروز‘ ہے جوانی کا |