زُہد اور رندی |
اک مولوی صاحب کی سُناتا ہوں کہانی تیزی نہیں منظور طبیعت کی دِکھانی |
شُہرہ تھا بہت آپ کی صُوفی منَشی کا کرتے تھے ادب اُن کا اعالی و ادانی |
کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوّف میں شریعت جس طرح کہ الفاظ میں مضمَر ہوں معانی |
لبریز مئے زُہد سے تھی دل کی صراحی تھی تہ میں کہیں دُردِ خیالِ ہمہ دانی |
کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی منظور تھی تعداد مُریدوں کی بڑھانی |
مُدّت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے تھی رند سے زاہد کی ملاقات پُرانی |
حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پُوچھا اقبالؔ، کہ ہے قُمریِ شمشادِ معانی |
پابندیِ احکامِ شریعت میں ہے کیسا؟ گو شعر میں ہے رشکِ کلیمِؔ ہمَدانی |
سُنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا ہے ایسا عقیدہ اثَرِ فلسفہ دانی |
ہے اس کی طبیعت میں تشُّیع بھی ذرا سا تفضیلِ علیؓ ہم نے سُنی اس کی زبانی |
سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اُڑانی |
کچھ عار اسے حُسن فروشوں سے نہیں ہے عادت یہ ہمارے شُعَرا کی ہے پُرانی |
گانا جو ہے شب کو تو سحَر کو ہے تلاوت اس رمز کے اب تک نہ کھُلے ہم پہ معانی |
لیکن یہ سُنا اپنے مُریدوں سے ہے مَیں نے بے داغ ہے مانندِ سحرَ اس کی جوانی |
مجموعۂ اضداد ہے، اقبالؔ نہیں ہے دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفَقانی |
رِندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف پُوچھو جو تصوّف کی تو منصور کا ثانی |
اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھُلتی ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی |
القصّہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے تا دیر رہی آپ کی یہ نَغْز بیانی |
اس شہر میں جو بات ہو، اُڑ جاتی ہے سب میں مَیں نے بھی سُنی اپنے اَحِبّا کی زبانی |
اک دن جو سرِ راہ مِلے حضرتِ زاہد پھر چھِڑ گئی باتوں میں وہی بات پُرانی |
فرمایا، شکایت وہ محبّت کے سبب تھی تھا فرض مرا راہ شریعت کی دِکھانی |
مَیں نے یہ کہا کوئی گِلہ مجھ کو نہیں ہے یہ آپ کا حق تھا ز رہِ قُربِ مکانی |
خم ہے سرِ تسلیم مرا آپ کے آگے پِیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی |
گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت پیدا نہیں کچھ اس سے قصورِ ہمہ دانی |
مَیں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی |
مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ ’اقبال‘ کو دیکھوں کی اس کی جُدائی میں بہت اشک فشانی |
اقبالؔ بھی ’اقبال‘ سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے |